Thursday, 3 October 2024
Causes Of Speech Delays
Causes Of Speech Delays
اگر بچے کی سماعت بالکل نارمل ہے لیکن وہ پھر بھی بول نہیں رہا تو اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ممکنہ عوامل یہ ہو سکتے ہیں:
1. زبان کی تاخیر (Speech Delay): بعض اوقات بچے کی زبان کی نشوونما عمر کے لحاظ سے تھوڑی دیر سے ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ تر وقت قدرتی ہوتا ہے اور بچے تھوڑی دیر بعد بولنا شروع کر دیتے ہیں۔
2. آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD): کچھ بچوں کو آٹزم ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ بولنے میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی سماعت ٹھیک ہوتی ہے۔ ایسے بچے زبان اور سماجی بات چیت میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔
3. آرٹیکولیشن ڈس آرڈر (Articulation Disorder): بعض بچے الفاظ کی درست ادائیگی میں مشکل محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ واضح طور پر بول نہیں پاتے۔
4. زبانی موٹر مہارت (Oral Motor Skills): بعض اوقات بچوں کو زبان، ہونٹ، اور جبڑے کی حرکت میں مشکلات ہوتی ہیں جو بولنے کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔
5. سماجی اور جذباتی مسائل: بعض بچے جذباتی یا سماجی وجوہات کی بنا پر بولنے میں تاخیر کا سامنا کر سکتے ہیں، مثلاً شرم، گھبراہٹ، یا کسی مخصوص ذہنی حالت کی وجہ سے۔
6. ڈویلپمنٹل ڈس آرڈر: کچھ بچے ایسے ڈویلپمنٹل مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں جن میں زبان یا بولنے کی نشوونما سست ہوتی ہے۔
اگر بچہ بولنے میں تاخیر کا شکار ہے تو بہتر ہے کہ اس کی ماہر نفسیات، اسپیچ تھراپسٹ یا پیڈیاٹریشن سے معائنہ کروایا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ مسئلے کی جلد تشخیص اور علاج ہوسکے۔
Friday, 26 July 2024
What is Schizophrenia
*شیزوفرینیا کیا ہے؟*
شیزوفرینیا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح عورتوں اور مردوں میں برابر ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو اس بیماری کے ہونے کا امکان گاؤں میں رہنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے پہلے یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔اس بیماری کے شروع ہونے کا امکان سب سے زیادہ پندرہ سے پینتیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
*شیزوفرینیا کی علامات کس طرح کی ہوتی ہیں؟*
شیزوفرینیا کی علامات دو طرح کی ہوتی ہیں، مثبت علامات اور منفی علامات۔
*مثبت علامات (Positive symptoms)*
ان علامات کو مثبت علامات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صحت کی حالت میں نہیں تھیں اور بیماری کی حالت میں نظر آنے لگتی ہیں۔ان میں مندرجہ ذیل علامات شامل ہیں۔
*ہیلوسینیشنز (Hallucinations)*
اگر آپ کو کسی شےیا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تواس عمل کو ہیلوسی نیشن کہتے ہیں۔شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلوسی نیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ آوازیں باہر سے آ رہی ہیں اور کانوں میں سنائی دے رہی ہیں، چاہے کسی اور کو یہ آوازیں نہ سنائی دے رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آوازیں آپ سے بات کرتی ہوں یا آپس میں باتیں کرتی ہوں۔
بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے کہ جیسے کوئی انھیں چھو رہا ہے ، کے ہیلوسی نیشن بھی ہوتے ہیں لیکن یہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
*ڈیلیوزن (Delusions)*
ڈیلیوزن ان خیالات کو کہتے ہیں جن پہ مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مریض کو اپنے خیال پہ سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن اورتمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔
ڈیلیوزن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں، انھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیِں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو پہ ان کے لیے خاص پیغامات نشر ہو رہے ہیں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی ان کے ذہن سے خیالات نکال لیتا ہے، یا ان کے ذہن میں جو خیالات ہیں وہ ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ کسی اور نے ان کے ذہن میں ڈالے ہیں۔بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی اور انسان یا غیبی طاقت ان کو کنٹرول کر رہے ہیں، ان سے ان کی مرضی کے خلاف کام کرواتے ہیں۔
*خیالات کا بے ربط ہونا (Muddled thinking or Thought Disorder)*
مریضوں کے لیے کاموں یا باتوں پہ توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض اخبار پڑھنے پہ یا ٹی وی دیکھنے پہ پوری توجہ نہیں دے پاتے، اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتے یا اپنا کام پوری توجہ سے نہیں کر پاتے۔مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خیالات بھٹکتے رہتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ایک دو منٹ کے بعد ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ چند لمحے پہلے کیا سوچ رہے تھے۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے دماغ پہ ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔
*منفی علامات (Negative symptoms)*
منفی علامات ان باتوں کو کہتے ہیں جو صحت کی حالت میں موجود تھیں لیکن اب بیماری کی حالت میں موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ منفی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں جتنی کہ مثبت علامات ہوتی ہیں لیکن مریض کی زندگی پہ یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ؛
ان کی زندگی میں دلچسپی، توانائی، احساسات سب ختم ہو گئے ہوں۔ مریضوں کو نہ کسی بات سے بہت خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔
ان کے لیے کسی بات یا کام پہ توجہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان میں بستر سے اٹھنے یا گھر سے باہر جانے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔
مریضوں کے لیے نہانا دھونا، صفائی ستھرائی رکھنا یا کپڑے بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
مریض لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں، ان کے لیے کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
*شیزوفرینیا کیوں ہو جاتا ہے؟*
ابھی تک ہمیں یقین سے نہیں معلوم کہ شیزو فرینیا کیوں ہوتا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مختلف لوگوں میں وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔
*جینز (Genes)*
کسی شخص کو شیزوفرینیا ہونے کا تقریباً پچاس فیصد خطرہ اس کی جینز کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سی جینز اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو شیزوفرینیا نہ ہو ان میں اس بیماری کے ہونے کا امکان تقریباً ایک فیصد ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے والدین میں سے ایک کو شیزو فرینیا ہو ان کو اس بیماری ہونے کا خطرہ تقریباً دس فیصد ہوتا ہےاور ہمشکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو اگر یہ بیماری ہوتو دوسرے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان تقریباً پچاس فیصد ہوتا ہے۔
*دماغی کمزوری*
دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کہ کہ شیزوفرینیا کے بعض مریضوں کے دماغ کی ساخت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ مریضوں کے دماغ کی نشو ونما مختلف وجوہات کی بنا پہ صحیح نہیں ہوئی ہوتی مثلاً اگر پیدائش کے عمل کے دوران بچے کے دماغ کو آکسیجن صحیح طرح سے نہ مل پائےیا حمل کے شروع کے مہینوں میں ماں کو وائرل اینفیکشن ہو جائے۔
*منشیات اور الکحل*
بعض دفعہ شیزوفرینیا منشیات کے استعمال کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ان منشیات میں ایکسٹیسی ، ایل ایس ڈی، ایمفیٹامین اور کریک کوکین شامل ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایمفیٹامین سے نفسیاتی بیماری پیدا ہوتی ہے جو اس کا استعمال بند کرنے سے ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں اب تک وثوق سے یہ تو نہیں معلوم کہ ایمفیٹامین سے لمبے عرصےتک چلنے والی نفسیاتی بیماری ہوتی ہے کہ نہیں لیکن جن لوگوں میں ایسی بیماری کا پہلے سے خطرہ ہو ان میں اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے شیزوفرینیا کی بیماری ہو اگر وہ الکحل یا منشیات استعمال کریں تو ان کے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔
*ذہنی دباؤ*
اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ ذہنی دباؤ سے شیزوفرینیا ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات کی شدت بڑھنے سے فوراً پہلے اکثر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہوتا ہے۔یہ کسی ناگہانی واقعے مثلاً گاڑی کے ایکسیڈنٹ یا کسی کے انتقال کے صدمے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور یا کسی طویل المیعاد وجہ مثلاً گھریلو تنازعات اور جھگڑوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔
*خاندانی مسائل*
خاندانی مسائل کی وجہ سے کسی کو شیزوفرینیا نہیں ہو تا، لیکن جس کو شیزوفرینیا ہو ان مسائل کی وجہ سے اس کی بیماری مزید خراب ضرور ہو سکتی ہے۔
*بچپن کی محرومیاں*
جن لوگوں کا بچپن بہت اذیت ناک اور محرومیوں سے بھرپور گزرا ہو اور دوسری نفسیاتی بیماریوں کی طرح ان لوگوں میں شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
منجانب
* SYED IRFAN ABID BUKHARI
ر
Friday, 19 January 2024
Bloom's Taxonomy in Urdu
BLOOM'S TAXONOMY IN URDU
Bloom'sTaxonomy Theory
بلوم ٹیکسونومی کا نظریہ
اہل فکرو دانش کے مابین 1949 سے لے کر 1953 تک کئی کانفرنسوں میں طویل بحث و گفتگو کے بعد نصاب اور امتحانات کے متعلق اساتذہ کے درمیان روابط کو بہتر بنانے سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا گیا، جسے بلوم ٹیکسونومی نظریہ کا نام دیا گیا ۔ یہ نظریہ 1956 میں منظر عام پر آیا۔اس نظریہ کو ڈیولپ کرنے میں تین آدمیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا نام تھا بجامین بلوم (Benjamin Bloom)۔ انھوں نے (Cognitive) پر کام کیا تھا ۔ دوسرا تھا (David Krathwohl)۔ انھوں نے (Affective ) پر کام کیا تھا۔ تیسری تھی (ANITA HARLOW) انھوں نے (Psychomotor ) پر کام کیا تھا۔ پھر 2001 میں اس نظریہ میں اصلاح و ترمیم کی گئی۔
یہ نظریہ رٹ کر سیکھنے کے نظریہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔یہ نظریہ انسانوں کے دماغی صلاحیت، مثلا سوچنے، سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔اس کے مطابق سیکھنے کے لیے تین بنیادی عناصر ہیں:
1۔ دماغی (Cognitive)
2۔ جذبات و تاثرات (Affective )
3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor )
اور یہ سب ایک ترتیب میں کام کرتے ہیں۔
1۔ دماغی (Cognitive)
دماغ (Cognitive) کے حوالے سے بلوم کا ماننا ہے کہ زبان و فکر کی تعمیر و تشکیل کے 6 مراحل ہوتے ہیں۔ جو سلسلہ وار اس طرح ہوتے ہیں:
(1) معلومات (Knowledge)
سیکھنے کا بنیادی مرحلہ کسی چیز کے بنیادی تصورات، حقائق ، شرائط کو جاننا اور انھیں یاد رکھنا ہے ۔ اس مرحلہ میں سمجھنا ضروری نہیں ہے۔
(2) تفہیم (Comprehension)
تفہیم میں مرکزی خیالات کو ترتیب دینا، اختصار کرنا، ترجمہ کرنا، حقائق اور نظریات کی تفہیم کا مظاہرہ کرنا شامل ہے۔بالفاظ دیگر معلومات کو سمجھنا ، سیکھنے کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔
(3) اطلاق (Application)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طالب علم نے جو معلومات حاصل کی ہیں اور جو کچھ سمجھا ہے، اس کی روشنی میں وہ حقائق، تراکیب اور قواعد کو استعمال کرتے ہوئے نئی مثالیں بنائے، اور پریشانیوں کو از خود حل کرے۔ مثال کے طور پر جب طالب علم نے یہ قاعدہ سمجھ لیا کہ عربی زبان کے ہر فاعل پر پیش آتا ہے، تو اس علم اور سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے فاعل کی نئی نئی مثالیں بنا سکتا ہے۔
(4) تجزیہ (Analysis)
تجزیے میں معلومات کی جانچ پڑتال، ایک دوسرے سے ربط، محرکات یا وجوہات کی نشاندہی، فہرست سازی اورحقائق کے لیے ثبوت تلاش کرنا شامل ہیں۔ عناصر کا تجزیہ،تعلقات کا تجزیہ اور تنظیم کا تجزیہ اس کی مخصوص صفات ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر ایک کام کو کئی طرح سے کیا جاسکتا ہے، تو تجزیہ کرکے سب سے بہتر طریقہ نکالنا تجزیہ کہلائے گا۔
(5) ترکیب (Synthesis)
متنوع عناصر اور مختلف اجزا سے کوئی نئی چیز تشکیل دینا ترکیب کہلاتا ہے ۔ اس میں منفرد روابط، منصوبہ سازی اور اجزا سے کامل چیزکی تخلیق شامل ہے۔مثال کے طور پر مختلف جڑی بوٹیوں کو ملاکر ایک نفع بخش دوائی اور معجون مرکب تیار کیا جاسکتا ہے۔ قابل تفہیم معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز خود تیار کرنا ترکیب کا عملی مظہر ہوگا۔
(6) تشخیص یا جج کرنا (Evaluation)
معلومات کی صداقت اور معیار کی جانچ کرتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرنا اور اس کے حق میں یا اس کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دینا تشخیص کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کی خصوصیات میں شامل ہیں:
داخلی ثبوت کے لحاظ سے فیصلے
بیرونی معیار کے لحاظ سے فیصلے
اور یہ معلومات کے حصول کا آخری درجہ ہے۔
2۔ جذبات و تاثرات (Affective )
اس میں لوگوں کے رویوں، جذبات اور احساسات میں بیداری اور ترقی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس کی5 سطحیں ہیں، جو نیچے سے اوپر کی طرف کام کرتی ہیں۔
(1) وصول کرنا (Receiving)
کسی چیز کو سیکھنے کے لیے طالب علم کو توجہ دینا ، یاد رکھنا اور شناخت کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیکھنے کے عمل کا آغاز نہیں ہوسکتا۔
(2) جواب دینا (Responding)
جو کچھ سیکھا ہے اس پر عملی مظاہرہ کرنا ضروری ہے، صرف یاد کرلینا اور اس کی عملی مشق نہ کرنا کافی نہیں ہے۔
(3) معنی خیز بنانا (Valuing)
طالب علم حسب ضرورت اپنی کچھ معلومات یا کل معلومات کو جوڑ کر معنی آفرینی کرتا ہے ۔
(4) منظم کرنا (Organizing)
طالب علم مختلف معلومات، اور نظریات کو اپنے تصورات میں بساکر ایک خاکہ بناتا ہے اورجو کچھ سیکھا ہے اس کی روشنی میں ایک مکمل پلان تیار کرتا ہے۔ اور یہ سیکھنے کا آخری مرحلہ ہے۔
(5) ملکہ بن جانا(Characterizing)
معلومات و نظریات اس مرحلے میں طالب علم کا ملکہ یا فطری صلاحیت بن جاتی ہے، جس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہتا۔
3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor )
سائکوموٹر عام طور پر رویے اورمہارت میں تبدیلی یا ترقی پر بحث کرتا ہے۔
بلوم اور اس کے ساتھیوں نے سائکو موٹر کے حوالے سے کوئی ذیلی چیزیں بیان نہیں کیں ، تاہم بعد کے لوگوں نے اس میں اضافہ کیا، جس کا خلاصہ پیش ہے۔
(1) حس (Perception)
حسی اشارے، اور تجربہ سے معلومات حاصل کرنا۔ یہ معلومات حاصل کرنے کا بنیادی مرحلہ ہے۔
(2) ذہن سازی (Set)
اس میں ذہنی ، جسمانی اور جذباتی اقدار شامل ہیں۔ یہ تینوں سیٹ کسی شخص کو مختلف حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں یا اس کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں ۔
(3) ہدایت والا جواب (Guided response)
کسی دوسرے شخص کی رہ نمائی میں عملی مہارت پیدا کرنے اور خارجی عادت و اطوار کی ترقی دی جاتی ہے ۔
(4) میکانزم (Mechanism)
سیکھی ہوئی چیز میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی اور طالب علم کچھ ٹاسک از خود کرسکتا ہے۔ جیسے نارمل طریقے پر گاڑی چلانا۔
(5) پیچیدہ جواب (Complex overt response)
اعلیٰ ترین مہارت ، جہاں پہنچ کر اس کام کو بلا خوف اور ہچکچاہٹ انجام دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بھیڑ بھاڑیا تنگ جگہوں پر گاڑی چلانا۔
(6) مطابقت (Adaptation)
اعلیٰ مہارت اور تجربات کی وجہ سے غیر متعلق چیزوں سے بھی کوئی دوسرا کام لے لینا۔ مثال کے طور پر پانی کے موٹر سے اسکوٹر چلانے کا کام لے لینا۔
(7) تخلیق (Origination)
انتہائی ترقی یافتہ مہارتوں کی بنا پر تخلیقی صلاحیتیں وجود میں آتی ہیں اور پھر نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے۔ تمام جدید ایجادات کی اس مثالیں ہوسکتی ہیں۔
#خلاصہ
بلوم ٹیکسونومی نظریہ دراصل تعلیمی مقاصد کی تشریح کرتا ہے، جو طالب علموں کی قوت فکر پر مبنی ہے۔ تعلیم میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اس کا اطلاق ضروری ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ اساتذہ کے لیے اپنی تدریسی اور تعلیمی مراحل کو بہتر بنانے میں معاون ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)