Thursday 3 October 2024

Causes Of Speech Delays

Causes Of Speech Delays اگر بچے کی سماعت بالکل نارمل ہے لیکن وہ پھر بھی بول نہیں رہا تو اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ممکنہ عوامل یہ ہو سکتے ہیں: 1. زبان کی تاخیر (Speech Delay): بعض اوقات بچے کی زبان کی نشوونما عمر کے لحاظ سے تھوڑی دیر سے ہوتی ہے، لیکن یہ زیادہ تر وقت قدرتی ہوتا ہے اور بچے تھوڑی دیر بعد بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ 2. آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD): کچھ بچوں کو آٹزم ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ بولنے میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی سماعت ٹھیک ہوتی ہے۔ ایسے بچے زبان اور سماجی بات چیت میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ 3. آرٹیکولیشن ڈس آرڈر (Articulation Disorder): بعض بچے الفاظ کی درست ادائیگی میں مشکل محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ واضح طور پر بول نہیں پاتے۔ 4. زبانی موٹر مہارت (Oral Motor Skills): بعض اوقات بچوں کو زبان، ہونٹ، اور جبڑے کی حرکت میں مشکلات ہوتی ہیں جو بولنے کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ 5. سماجی اور جذباتی مسائل: بعض بچے جذباتی یا سماجی وجوہات کی بنا پر بولنے میں تاخیر کا سامنا کر سکتے ہیں، مثلاً شرم، گھبراہٹ، یا کسی مخصوص ذہنی حالت کی وجہ سے۔ 6. ڈویلپمنٹل ڈس آرڈر: کچھ بچے ایسے ڈویلپمنٹل مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں جن میں زبان یا بولنے کی نشوونما سست ہوتی ہے۔ اگر بچہ بولنے میں تاخیر کا شکار ہے تو بہتر ہے کہ اس کی ماہر نفسیات، اسپیچ تھراپسٹ یا پیڈیاٹریشن سے معائنہ کروایا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ مسئلے کی جلد تشخیص اور علاج ہوسکے۔

Friday 26 July 2024

What is Schizophrenia

*شیزوفرینیا کیا ہے؟* شیزوفرینیا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح عورتوں اور مردوں میں برابر ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو اس بیماری کے ہونے کا امکان گاؤں میں رہنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے پہلے یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔اس بیماری کے شروع ہونے کا امکان سب سے زیادہ پندرہ سے پینتیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔ *شیزوفرینیا کی علامات کس طرح کی ہوتی ہیں؟* شیزوفرینیا کی علامات دو طرح کی ہوتی ہیں، مثبت علامات اور منفی علامات۔ *مثبت علامات (Positive symptoms)* ان علامات کو مثبت علامات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صحت کی حالت میں نہیں تھیں اور بیماری کی حالت میں نظر آنے لگتی ہیں۔ان میں مندرجہ ذیل علامات شامل ہیں۔ *ہیلوسینیشنز (Hallucinations)* اگر آپ کو کسی شےیا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تواس عمل کو ہیلوسی نیشن کہتے ہیں۔شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلوسی نیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ آوازیں باہر سے آ رہی ہیں اور کانوں میں سنائی دے رہی ہیں، چاہے کسی اور کو یہ آوازیں نہ سنائی دے رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آوازیں آپ سے بات کرتی ہوں یا آپس میں باتیں کرتی ہوں۔ بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے کہ جیسے کوئی انھیں چھو رہا ہے ، کے ہیلوسی نیشن بھی ہوتے ہیں لیکن یہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ *ڈیلیوزن (Delusions)* ڈیلیوزن ان خیالات کو کہتے ہیں جن پہ مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مریض کو اپنے خیال پہ سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن اورتمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔ ڈیلیوزن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں، انھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیِں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو پہ ان کے لیے خاص پیغامات نشر ہو رہے ہیں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی ان کے ذہن سے خیالات نکال لیتا ہے، یا ان کے ذہن میں جو خیالات ہیں وہ ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ کسی اور نے ان کے ذہن میں ڈالے ہیں۔بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی اور انسان یا غیبی طاقت ان کو کنٹرول کر رہے ہیں، ان سے ان کی مرضی کے خلاف کام کرواتے ہیں۔ *خیالات کا بے ربط ہونا (Muddled thinking or Thought Disorder)* مریضوں کے لیے کاموں یا باتوں پہ توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض اخبار پڑھنے پہ یا ٹی وی دیکھنے پہ پوری توجہ نہیں دے پاتے، اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتے یا اپنا کام پوری توجہ سے نہیں کر پاتے۔مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خیالات بھٹکتے رہتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ایک دو منٹ کے بعد ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ چند لمحے پہلے کیا سوچ رہے تھے۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے دماغ پہ ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔ *منفی علامات (Negative symptoms)* منفی علامات ان باتوں کو کہتے ہیں جو صحت کی حالت میں موجود تھیں لیکن اب بیماری کی حالت میں موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ منفی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں جتنی کہ مثبت علامات ہوتی ہیں لیکن مریض کی زندگی پہ یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ؛ ان کی زندگی میں دلچسپی، توانائی، احساسات سب ختم ہو گئے ہوں۔ مریضوں کو نہ کسی بات سے بہت خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ ان کے لیے کسی بات یا کام پہ توجہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان میں بستر سے اٹھنے یا گھر سے باہر جانے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ مریضوں کے لیے نہانا دھونا، صفائی ستھرائی رکھنا یا کپڑے بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں، ان کے لیے کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ *شیزوفرینیا کیوں ہو جاتا ہے؟* ابھی تک ہمیں یقین سے نہیں معلوم کہ شیزو فرینیا کیوں ہوتا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مختلف لوگوں میں وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ *جینز (Genes)* کسی شخص کو شیزوفرینیا ہونے کا تقریباً پچاس فیصد خطرہ اس کی جینز کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سی جینز اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو شیزوفرینیا نہ ہو ان میں اس بیماری کے ہونے کا امکان تقریباً ایک فیصد ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے والدین میں سے ایک کو شیزو فرینیا ہو ان کو اس بیماری ہونے کا خطرہ تقریباً دس فیصد ہوتا ہےاور ہمشکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو اگر یہ بیماری ہوتو دوسرے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان تقریباً پچاس فیصد ہوتا ہے۔ *دماغی کمزوری* دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کہ کہ شیزوفرینیا کے بعض مریضوں کے دماغ کی ساخت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ مریضوں کے دماغ کی نشو ونما مختلف وجوہات کی بنا پہ صحیح نہیں ہوئی ہوتی مثلاً اگر پیدائش کے عمل کے دوران بچے کے دماغ کو آکسیجن صحیح طرح سے نہ مل پائےیا حمل کے شروع کے مہینوں میں ماں کو وائرل اینفیکشن ہو جائے۔ *منشیات اور الکحل* بعض دفعہ شیزوفرینیا منشیات کے استعمال کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ان منشیات میں ایکسٹیسی ، ایل ایس ڈی، ایمفیٹامین اور کریک کوکین شامل ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایمفیٹامین سے نفسیاتی بیماری پیدا ہوتی ہے جو اس کا استعمال بند کرنے سے ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں اب تک وثوق سے یہ تو نہیں معلوم کہ ایمفیٹامین سے لمبے عرصےتک چلنے والی نفسیاتی بیماری ہوتی ہے کہ نہیں لیکن جن لوگوں میں ایسی بیماری کا پہلے سے خطرہ ہو ان میں اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے شیزوفرینیا کی بیماری ہو اگر وہ الکحل یا منشیات استعمال کریں تو ان کے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ *ذہنی دباؤ* اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ ذہنی دباؤ سے شیزوفرینیا ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات کی شدت بڑھنے سے فوراً پہلے اکثر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہوتا ہے۔یہ کسی ناگہانی واقعے مثلاً گاڑی کے ایکسیڈنٹ یا کسی کے انتقال کے صدمے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور یا کسی طویل المیعاد وجہ مثلاً گھریلو تنازعات اور جھگڑوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔ *خاندانی مسائل* خاندانی مسائل کی وجہ سے کسی کو شیزوفرینیا نہیں ہو تا، لیکن جس کو شیزوفرینیا ہو ان مسائل کی وجہ سے اس کی بیماری مزید خراب ضرور ہو سکتی ہے۔ *بچپن کی محرومیاں* جن لوگوں کا بچپن بہت اذیت ناک اور محرومیوں سے بھرپور گزرا ہو اور دوسری نفسیاتی بیماریوں کی طرح ان لوگوں میں شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ منجانب * SYED IRFAN ABID BUKHARI ر

Friday 19 January 2024

Bloom's Taxonomy in Urdu

BLOOM'S TAXONOMY IN URDU Bloom'sTaxonomy Theory بلوم ٹیکسونومی کا نظریہ اہل فکرو دانش کے مابین 1949 سے لے کر 1953 تک کئی کانفرنسوں میں طویل بحث و گفتگو کے بعد نصاب اور امتحانات کے متعلق اساتذہ کے درمیان روابط کو بہتر بنانے سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا گیا، جسے بلوم ٹیکسونومی نظریہ کا نام دیا گیا ۔ یہ نظریہ 1956 میں منظر عام پر آیا۔اس نظریہ کو ڈیولپ کرنے میں تین آدمیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا نام تھا بجامین بلوم (Benjamin Bloom)۔ انھوں نے (Cognitive) پر کام کیا تھا ۔ دوسرا تھا (David Krathwohl)۔ انھوں نے (Affective ) پر کام کیا تھا۔ تیسری تھی (ANITA HARLOW) انھوں نے (Psychomotor ) پر کام کیا تھا۔ پھر 2001 میں اس نظریہ میں اصلاح و ترمیم کی گئی۔ یہ نظریہ رٹ کر سیکھنے کے نظریہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔یہ نظریہ انسانوں کے دماغی صلاحیت، مثلا سوچنے، سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔اس کے مطابق سیکھنے کے لیے تین بنیادی عناصر ہیں: 1۔ دماغی (Cognitive) 2۔ جذبات و تاثرات (Affective ) 3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor ) اور یہ سب ایک ترتیب میں کام کرتے ہیں۔ 1۔ دماغی (Cognitive) دماغ (Cognitive) کے حوالے سے بلوم کا ماننا ہے کہ زبان و فکر کی تعمیر و تشکیل کے 6 مراحل ہوتے ہیں۔ جو سلسلہ وار اس طرح ہوتے ہیں: (1) معلومات (Knowledge) سیکھنے کا بنیادی مرحلہ کسی چیز کے بنیادی تصورات، حقائق ، شرائط کو جاننا اور انھیں یاد رکھنا ہے ۔ اس مرحلہ میں سمجھنا ضروری نہیں ہے۔ (2) تفہیم (Comprehension) تفہیم میں مرکزی خیالات کو ترتیب دینا، اختصار کرنا، ترجمہ کرنا، حقائق اور نظریات کی تفہیم کا مظاہرہ کرنا شامل ہے۔بالفاظ دیگر معلومات کو سمجھنا ، سیکھنے کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔ (3) اطلاق (Application) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طالب علم نے جو معلومات حاصل کی ہیں اور جو کچھ سمجھا ہے، اس کی روشنی میں وہ حقائق، تراکیب اور قواعد کو استعمال کرتے ہوئے نئی مثالیں بنائے، اور پریشانیوں کو از خود حل کرے۔ مثال کے طور پر جب طالب علم نے یہ قاعدہ سمجھ لیا کہ عربی زبان کے ہر فاعل پر پیش آتا ہے، تو اس علم اور سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے فاعل کی نئی نئی مثالیں بنا سکتا ہے۔ (4) تجزیہ (Analysis) تجزیے میں معلومات کی جانچ پڑتال، ایک دوسرے سے ربط، محرکات یا وجوہات کی نشاندہی، فہرست سازی اورحقائق کے لیے ثبوت تلاش کرنا شامل ہیں۔ عناصر کا تجزیہ،تعلقات کا تجزیہ اور تنظیم کا تجزیہ اس کی مخصوص صفات ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر ایک کام کو کئی طرح سے کیا جاسکتا ہے، تو تجزیہ کرکے سب سے بہتر طریقہ نکالنا تجزیہ کہلائے گا۔ (5) ترکیب (Synthesis) متنوع عناصر اور مختلف اجزا سے کوئی نئی چیز تشکیل دینا ترکیب کہلاتا ہے ۔ اس میں منفرد روابط، منصوبہ سازی اور اجزا سے کامل چیزکی تخلیق شامل ہے۔مثال کے طور پر مختلف جڑی بوٹیوں کو ملاکر ایک نفع بخش دوائی اور معجون مرکب تیار کیا جاسکتا ہے۔ قابل تفہیم معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز خود تیار کرنا ترکیب کا عملی مظہر ہوگا۔ (6) تشخیص یا جج کرنا (Evaluation) معلومات کی صداقت اور معیار کی جانچ کرتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرنا اور اس کے حق میں یا اس کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دینا تشخیص کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کی خصوصیات میں شامل ہیں: داخلی ثبوت کے لحاظ سے فیصلے بیرونی معیار کے لحاظ سے فیصلے اور یہ معلومات کے حصول کا آخری درجہ ہے۔ 2۔ جذبات و تاثرات (Affective ) اس میں لوگوں کے رویوں، جذبات اور احساسات میں بیداری اور ترقی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس کی5 سطحیں ہیں، جو نیچے سے اوپر کی طرف کام کرتی ہیں۔ (1) وصول کرنا (Receiving) کسی چیز کو سیکھنے کے لیے طالب علم کو توجہ دینا ، یاد رکھنا اور شناخت کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیکھنے کے عمل کا آغاز نہیں ہوسکتا۔ (2) جواب دینا (Responding) جو کچھ سیکھا ہے اس پر عملی مظاہرہ کرنا ضروری ہے، صرف یاد کرلینا اور اس کی عملی مشق نہ کرنا کافی نہیں ہے۔ (3) معنی خیز بنانا (Valuing) طالب علم حسب ضرورت اپنی کچھ معلومات یا کل معلومات کو جوڑ کر معنی آفرینی کرتا ہے ۔ (4) منظم کرنا (Organizing) طالب علم مختلف معلومات، اور نظریات کو اپنے تصورات میں بساکر ایک خاکہ بناتا ہے اورجو کچھ سیکھا ہے اس کی روشنی میں ایک مکمل پلان تیار کرتا ہے۔ اور یہ سیکھنے کا آخری مرحلہ ہے۔ (5) ملکہ بن جانا(Characterizing) معلومات و نظریات اس مرحلے میں طالب علم کا ملکہ یا فطری صلاحیت بن جاتی ہے، جس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہتا۔ 3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor ) سائکوموٹر عام طور پر رویے اورمہارت میں تبدیلی یا ترقی پر بحث کرتا ہے۔ بلوم اور اس کے ساتھیوں نے سائکو موٹر کے حوالے سے کوئی ذیلی چیزیں بیان نہیں کیں ، تاہم بعد کے لوگوں نے اس میں اضافہ کیا، جس کا خلاصہ پیش ہے۔ (1) حس (Perception) حسی اشارے، اور تجربہ سے معلومات حاصل کرنا۔ یہ معلومات حاصل کرنے کا بنیادی مرحلہ ہے۔ (2) ذہن سازی (Set) اس میں ذہنی ، جسمانی اور جذباتی اقدار شامل ہیں۔ یہ تینوں سیٹ کسی شخص کو مختلف حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں یا اس کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں ۔ (3) ہدایت والا جواب (Guided response) کسی دوسرے شخص کی رہ نمائی میں عملی مہارت پیدا کرنے اور خارجی عادت و اطوار کی ترقی دی جاتی ہے ۔ (4) میکانزم (Mechanism) سیکھی ہوئی چیز میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی اور طالب علم کچھ ٹاسک از خود کرسکتا ہے۔ جیسے نارمل طریقے پر گاڑی چلانا۔ (5) پیچیدہ جواب (Complex overt response) اعلیٰ ترین مہارت ، جہاں پہنچ کر اس کام کو بلا خوف اور ہچکچاہٹ انجام دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بھیڑ بھاڑیا تنگ جگہوں پر گاڑی چلانا۔ (6) مطابقت (Adaptation) اعلیٰ مہارت اور تجربات کی وجہ سے غیر متعلق چیزوں سے بھی کوئی دوسرا کام لے لینا۔ مثال کے طور پر پانی کے موٹر سے اسکوٹر چلانے کا کام لے لینا۔ (7) تخلیق (Origination) انتہائی ترقی یافتہ مہارتوں کی بنا پر تخلیقی صلاحیتیں وجود میں آتی ہیں اور پھر نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے۔ تمام جدید ایجادات کی اس مثالیں ہوسکتی ہیں۔ #خلاصہ بلوم ٹیکسونومی نظریہ دراصل تعلیمی مقاصد کی تشریح کرتا ہے، جو طالب علموں کی قوت فکر پر مبنی ہے۔ تعلیم میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اس کا اطلاق ضروری ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ اساتذہ کے لیے اپنی تدریسی اور تعلیمی مراحل کو بہتر بنانے میں معاون ہے

Tuesday 26 December 2023

Titles of Allah'prophets

القاب Titles 1_ آدم علیہ السلام ؟ = ابو البشر، اول البشر، خلیفۃ فی الارض، صفی اللہ، بانی کعبۃ اللہ۔ 2_ نوح علیہ السلام ؟ = آدم ثانی، نجی اللہ، شیخ الانبیاء، اول المرسلین، صاحب السفینۃ، نعم المجیب۔ 3_ ابراھیم علیہ السلام ؟ = جد الانبیاء، جد العرب، خلیل اللّہ، بت شکن، صاحب النار ذی البرد والسلام، معمار کعبۃ اللہ، امام الناس، صاحب قلب سلیم، صاحب دین حنیف، امت قانت۔ 4_ اسماعیل علیہ السلام ؟ = ابو العرب، ذبیح اللہ۔ 5_ ھاجرہ علیھا السلام ؟ = ام العرب۔ 6_ اسحاق علیہ السلام ؟ = ابو الانبیاء۔ 7_ سارہ علیھا السلام ؟ = ام الانبیاء۔ 8_ یعقوب علیہ السّلام ؟ = اسرائیل، صاحب صبر جمیل۔ 9_ یوسف علیہ السلام ؟ = الصدیق، صاحب الحسن، صاحب تعبیر رؤیا۔ 10_ صالح علیہ السلام ؟ = صاحب الناقۃ۔ 11_ ھود علیہ السلام ؟ = نجیب اللہ۔ 12_ ادریس علیہ السلام ؟ = موجد قلم، ماھر فلکیات۔ 13_ لوط علیہ السلام ؟ = اول المھاجر۔ 14_ شعیب علیہ السلام ؟ = خطیب الانبیاء، شیخ کبیر، صاحب مدین۔ 15_ یونس علیہ السلام ؟ = صاحب الحوت، صاحب النون، صاحب یقطین (کدو)۔ 16_ موسیٰ علیہ السلام ؟ = کلیم اللّہ، صاحب التوراۃ، صاحب الاحکام العشرۃ، صاحب الآیات التسعۃ، قرآن میں زیادہ ذکر صاحب عصا، صاحب ید بیضاء۔ 17_ ھارون علیہ السلام ؟ = ترجمان یا فصیح، مدفون احد۔ 18_ داؤد علیہ السلام ؟ = خلیفۃ اللّہ، صاحب الحدید، خوش الحان، صاحب الزبور۔ 19_ سلیمان علیہ السلام ؟ = ملک الارض، صاحب ہوا، گھوڑوں سے محبت رکھنے والا، مخلوقات کی زبان جاننے والا۔ 20_ ایوب علیہ السلام ؟ = صاحب الصبر، نعم العبد۔ 21_ عزیر علیہ السلام ؟ = مجدد التوراۃ، سو سال سو کر اٹھنے والا۔ 22_ حزقیل علیہ السلام ؟ = قدرۃ اللہ، ابن العجوز۔ 23_ زکریا علیہ السلام ؟ = آرے والا، سرپرست مریم۔ 24_ یحییٰ علیہ السلام ؟ = سید، حصور، ہمعصر عیسیٰ عہ۔ 25_ الیاس علیہ السلام ؟ = صاحب بعلبک۔ 26_ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ = حبیب اللہ، رسول اللہ، صاحب القرآن، دعائے خلیل، نوید مسیحا، خاتم النبیین، امام الانبیاء، افضل المرسلین، صاحب المعراج، ابن الذبیحین۔

Thursday 21 December 2023

SPECIAL EDUCATION MCQ'S

1. The most severely affected person could bleed so profesly from minor injuries.. A. Sickle cell B. Himophilia✔️ C. Cystic fibrosis 2. Who can use subtle and persuasive techniques in an attempt to foster peer acceptance of physically handicapped students. A. Speech therapist B. Psychologist C. Classroom teacher✔ 3. Blissymoblics system was originated by. A. W.A Watson B. Charles k. Bliss✔ C. Jeen Darkens 4. Students participating in the resource room are enrolled in the educational curriculum and go to the resource room on a regularly scheduled basis for special sports most often academic nature. A. General education✔ B. Special education C. Technical education 5. Building modifications such as ramps open doors to education for... A. Physically handicapped children✔ B. Mentally challenged C. Hearing impaired 6. The Alexander Great was the student of A. Aristotle✔ B. Plato C. Socrates 7. Which one is a lateral curvature of the spine that occurs most often in a adolescent girls. A. Cerebral palsy B. Spina bifida C. Scoliosis✔ 8. Research that is done to find someone else using same variable but different people. A. Replication✔ B. Hypothesis C. Exploration 9. When each member of population has equili chance of being selected is called.. A. Snowball sampling B. Kota sampling C. An equal probability selection✔ 10. Object Permanence is completed in which stage: * A.Sensimotor Stage*✔ B. Pre operational C. Concrete operational 11. Which part of the brain controls pitutery glands: A.Hypothelamus✔ B. Spinal cord C. Brain stem 12. Which part of the brain is associated with vision: A. Parental lobe B.Temporal Lobe C. Occipital lobe ✔ 13. A person having problems in reading and writing is suffering from: A. Dyscalculia B. Dyslexia✔ C. Dysgraphia 14. As traditionally used to a problem with a structure or organ of the body; A. disability B. Handicap C. Impairment ✔ 15. An ordinance to provide for the employment rehabilitation and welfare of the disabled person in.. A. 1981✔ B. 1975 C.2008 16. How many colleges of special education in punjab. A.7✔ B. 5 C. 3 17. Prenatal rubella infection, Rh disease, anoxia at birth can be the causes of.. A. Haemophilia B. Epilepsy C. Cerebral palsy✔ 18. Amelia refers to.. A. Absence of limb✔ B. Calcium deficiency C. Blood disease 19. The seizure is characterized by a sudden loss of consciousness and rigidity of the body followed by jerking moment is called. A. Grand Mall seizures B. Petit Mall seizures✔ C. Psychomotor seizures 20. Pentaplegia involves. A. Upper 2 limbs B. Upper 2 and lower 1 limbs C. All four limbs and head✔

Wednesday 20 December 2023

DYSLEXIA

DYSLEXIA (SPECIFIC LEARNING DISABILITY) ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) آج کی دنیا میں بےشمار لوگ کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی ڈپریشن اور انگزائٹی میں مبتلا ہیں۔ اس کا سدِ باب وقت پر نہ ہو تو نفسیاتی اور ذہنی امراض جنم لینے لگتے ہیں ذہنی دباؤ (اسٹریس)، تناؤ (ٹینشن)، مایوسی و افسردگی (ڈپریشن)، بے چینی (نروسنیس)، گھبراہٹ (انگزائٹی)، خوف، دہشت، بے جا خوف (فوبیا)، ہائپرٹینشن، وسوسہ، واہمہ(شیزوفرینیا) چڑچڑا پن (فرسٹریشن) جارحیت (ایگریسونیس) اضمحلال SAD ، خبط OCD، صدمہ PTSD، مالیخولیا، بائی پولر ڈس آرڈر، ہسٹریا، ڈسلیکسیا، شک، حسد، نیند کی کمی ، پریشان کن خواب، احساس کمتری، ناکامی، پژمردگی اور دیگر نفسیاتی الجھنیں وغیرہ موجودہ دور کے عام مسائل ہیں یہ ذہنی و نفسیاتی عارضے کسی ایک طبقے یا صنف تک محدود نہیں ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، بچے ہوں یا بوڑھے روز مرّہ زندگی کے مسائل سے اُلجھ کر نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ ہمارے معاشرے میں جبر برداشت لوگ خصوصاً عورتیں اور بچے خاص طور پر ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں۔ بحرحال ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص، سمعی نقائص،ذہنی صحت (نفسیاتی) معذوریاں،فکری معذوری اوراکتسابی معذوری (Learning Disabilities)وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا(Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کاہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متاثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ اپنی اکتسابی معذوری سے اتنے مایوس ھو جاتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں عموماً خودکشی کی وجوہات بیان کرتے وقت سادہ تشریحات کا سہارا لیا جاتا ہے، Dyslexia is a learning disorder that involves difficul Dyslexia is a learning difficulty that primarily affects the skills involved in accurate and fluent word reading and spelling. Characteristic features of dyslexia are difficulties in phonological awareness, verbal memory and verbal processing speed. Dyslexia occurs across the range of intellectual abilities. ڈسلیکسیا دنیا بھر کے بچوں میں پائی جانے والی ایک عام لرننگ ڈس ایبلیٹی ہے، اعداد و شمار کے مطابق یہ مسئلہ ہر 10 میں سے ایک بچے میں پایا جاتا ہے۔ تعلیمی ماہرین نفسیات کے مطابق ڈسلیکسیا جسے نقصِ کلام بھی کہا جاتا ھے کوئی ذہنی معذوری نہیں اور نہ ہی ڈسلیکسیا کے شکار بچے بیوقوف نہیں ہوتے بلکہ اس کے شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دقت محسوس کرتے ہیں، تاہم انہیں کند ذہن یا کاہل بھی نہیں کہا جا سکتا، ان کی یہ کمزوری صرف سیکھنے کے عمل میں ہی رکاوٹ کھڑی کرتی ہے،ڈسلیکسیا کی وجہ سے لوگ اپنا موقف یا اپنی رائے کے اظہار میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لیے الفاظ کے چناؤ اور اپنی سوچ کو گفتگو کی صورت میں کرنا اور اسے مربوط کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ بعض افراد کو دوسروں کی گفتگو کو سمجھنے میں بھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔یہ تمام مسائل شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسے مسائل کا شکار فرد نفسیاتی طور پر کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ لوگ اسے اہمیت نہیں دے رہے اور اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اسے ہم ذہنی کمزروی نہیں کہہ سکتے، چونکہ بچے کی ابتدائی تعلیم کا آغاز لکھنے، پڑھنے سے ہوتا ہے اور اسی سطح پر بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے جتنا جلد اس کی شناخت کر کے متبادل طریقوں سے سیکھنے کے عمل میں بچے کی مدد کی جائے، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ڈسلیکسیا کے شکار افراد بھی بے حد کام یاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں کیٹی اومیلی انڈیپینڈنٹ اردو میں اس بارے میں لکھتی ہیں کہ ڈسلیکسیا ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس کے شکار فرد کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کا تعلق دماغ اور اُس کے کام سے ہے مگر اِس کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ڈسلیکسیاکا شکار بچوں کوکسی بھی زبان کے الفاظ کی ادائیگی اورآواز کے اتار چڑھاؤ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ڈسلیکسیاکے شکار فرد کو سپیلنگ میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈسلیکسیا پڑھنے کی ایک ایسی معذوری کا نام ہے جو کہ چھپی ہوئی ہوتی ہے اِس کا عام لوگوں اور جو فرد اِس کا شکار ہو اُسے خود پتا نہیں چلتا کہ وہ اِس کا شکار ہے۔ چوں کہ اکثر اوقات اساتذہ کو بھی اِس بیماری اور اِس کی علامات کے بارے میں علم نہیں ہوتا اِس لیے وہ بچے جو ڈسلیکسیاکا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی جماعت کے دوسرے بچوں کی نسبت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اساتذہ بھی اُن کی کسی قسم کی مدد کے قابل نہیں ہوتے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) سے متعلق ڈان نیوز نے بھی لکھا ھے جس کے مطابق اس بیماری کو زیادہ تر لوگ مسئلہ سمجھتے ہیں، اسے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا جب کہ بہت سارے لوگ اس کی علامات ہی نہیں سمجھ پاتے۔اس بیماری کا براہ راست تعلق حروف کو پہچاننے، پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات سے ہے اور اسے کئی سال قبل ’ورڈ بلائنڈنیس‘ یا ’ریڈنگ ڈس ایبلٹی‘ بھی کہا جاتا تھا لیکن پھر 1968 میں اس کے لیے پہلی بار ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔عام طور پر اس بیماری کی علامات اس وقت سامنے آتی ہے جب بولنے کی عمر کو پہنچتا ہے اور ان کی جانب سے بول نہ پانے کو ’ڈسلیکسیا‘ کی ابتدائی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم بچوں کی جانب سے بول نہ پانے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور اس وقت کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کی زیادہ تر کھل کر علامات اس وقت سامنے آتی ہیں جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں اور وہیں انہیں حروف کو پہچاننے، لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ڈسلیکسیا والے بچے اکثر شرمیلے ہوتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے درمیان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ بے بسی کا احساس ناکامی اور اس کے نتیجے میں ناکامی کے خوف کا سبب بنتا ہے۔ اکثر ایسے بچے اپنی صلاحیتوں اور طاقت پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ڈسلیکسیا میں مبتلا بہت سے لوگوں کو پڑھائی کے دوران توجہ مرکوز کرنے اور جلدی تھکنے میں دشواری ہوتی ہے۔’ڈسلیکسیا‘ کی علامات سب سے پہلے بچوں کے اساتذہ نوٹ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر استادوں کو یہ علم نہیں کہ بچوں کی جانب سے درست انداز میں پڑھائی نہ کرپانے کی ایک وجہ ’ڈسلیکسیا‘ بھی ہوسکتا ہے۔اس کی 4 بڑی اقسام ہیں جن میں Phonological dyslexia. This is also called dysphonetic or auditory dyslexia. ... Surface dyslexia. This is also called dyseidetic or visual dyslexia. ... Rapid naming deficit. The person finds it difficult to name a letter, number, color, or object quickly and automatically. ... Double deficit dyslexia. مثلاً ڈیسگرافی میں حروف بڑے اور غلط شکل کے ہوتے ہیں، لکیروں سے آگے بڑھتے ہوئے، بچہ ایک جیسے نظر آنے والے حروف کو الجھا دیتا ہے، حروف کو چھوڑ دیتا ہے اور حروف اور نحو کو دوبارہ ترتیب دیتا ہے، وہ ایک لفظ کو کئی طریقوں سے لکھتا ہے، جیسے سیجا، شجا، سجا (گردن)، اور وہ نہیں لکھتا۔ Dysortografia ہجے میں قواعد کے علم کے باوجود ہجے کی درستگی کے لحاظ سے لکھنے کی مہارت کی کمی ہوتی ہے بچہ مثال کے طور پر پہاڑ اور گورا ایک متن میں لکھتا ہے اور فرق محسوس نہیں کرتا۔ ڈسکلیولیا میں ریاضی سیکھنے کے بارے میں مشکلات آتی ہیں مثلاً نمبروں کے نام دینے میں دشواری، علامات، نمبر اور علامتیں، مبہم اعمال، بچے کو تقسیم اور ضرب کرنی چاہیے، حالانکہ وہ تقسیم کا نشان دیکھتا ہے اس قسم کی علامات لازمی نہیں کہ بچوں کو پڑھائی میں مشکلات کو’ڈسلیکسیا‘ سے جوڑا جائے، تاہم ایسی صورت حال میں ماہر ڈاکٹرز سے رجوع کیا جانا چاہئیے۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے درست تشخیص کے لیے ماہر امراض اطفال سمیت اعصابی اور دماغی بیماریوں کے ماہرین کے پاس جایا جاسکتا ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں بعض جینیاتی بھی ہوتی ہیں اور بعض نیورو کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بعض بچوں میں اس بیماری کی شدت سنگین ہو اور اس کی علامات بھی انتہائی خطرناک ہوں۔ عام طور پر ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات اتنی شدید اور خطرناک نہیں ہوتیں اور آغاز میں ہی بچوں میں ایسے مسائل سامنے آنے کے بعد ڈاکٹرز سے رجوع کرنے پر علامات ختم ہوجاتی ہیں لیکن بعض مرتبہ والدین کی جانب سے ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات کو نظر انداز کرنے سے بیماری میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کا کوئی علاج موجود نہیں، البتہ ماہرین صحت اس کی علامات اور شدت کو دیکھتے ہوئے دیگر ادویات سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کے شکار بچوں کے ساتھ ایک اور ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ والدین اور دیگر افراد انہیں کم عقل اور نالائق سمجھ کر پڑھ نہ پانے پر انہیں ڈانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ایسے بچوں میں مایوسی بڑھ سکتی ہے۔

Sunday 20 June 2021

BAHAWALPUR HISTORY

 

بہاول پور تاریخ کے حوالے سے,,,

HISTORICAL FACTS AND FIGURES ABOUT BAHAWALPUR


*بہاول پورکی آبادی 2019 کی مردم شماری کے مطابق تقریبا 25 لاکھ،، افراد پر مشتمل ہے*


*1727میں صادق محمد خان اول عباسی نے اسے فتح کیا اور اس کا پہلا دارالخلافہ *لیاقت پور سے 20 کلو میٹر دور کا علاقہ اللہ آباد* بنایا گیا*


*1739 میں *صادق محمد خان اول عباسی کونادر شاہ درانی نے نواب کا خطاب* دیا*


*1748 میں "اللہ آباد سے بھاولپور " کو آباد کیا گیا*


*1774میں " اللہ آباد سے بھاولپور کو دارالخلافہ " بنادیا گیا*


*1867 میں *محکمہ صحت اور ڈسپینسریاں* بنائ گئ*


*1875 میں  *نور محل بنا*


*1878میں *ستلج دریا پر ٹرین کا پل بنا*  *جو کہ ڈیڑھ کلو میٹر لمبا ہے*


*1886 میں *S.Eکالج کی بنیاد رکھی گئ اور 1892 میں ڈگري کلاس* کا آغاز کیا گیا*


*1892 میں ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی گولڈن جوبلی کے موقح پر یار گار کے لیے *جوبلی ہسپتال*بھاولپور* میں بنا*


*1906میں ہی ملکہ وکٹوریہ کی یاد گار کے طور پر *بھاول وکٹوریہ ہسپتال* بنایا گیا*


*1911 میں پہلا *ملٹری ہسپتال CMH* بنایا گیا*


*1926 میں برصغیر کا پہلا *طبیہ کالج* بنا *جہاں بھاولپور کے تمام طلبہ کے علاوہ لوگوں کو مفت ادویات دی جاتی تھیں*


** 1928میں *دریاےستلج پر پل بنا اور اس کے ساتھ ساتھ ہیڈسیلمانکی+ہیڈ اسلام+ہیڈ پنجند* بنایا گیا


*1930میں وکٹوریہ ہسپتال میں مزید توسیع کی گئ اور 1938میں پہلا* *ایکسرے ڈیپارٹمنٹ* بنایا گیا


*1924میں نواب پنجم کی تعلیم مکمل ہونے پر وائس راے نے نواب کو اختیارات تفویض کئے*

 *1924میں *سینٹرل لایبریری* *بنائ گئ*


** 1925 میں *اسلامیہ یونیورسٹی* بنائ گئ اس کا پہلا نام *الصادق کالج* تھا


*1927 سے قیام پاکستان تک *جناب قائد اعظم اور علامہ اقبال* *ریاست بھاولپور کے قانونی مشیر تھے*


*1935میں *جامعہ مسجد الصادق    کی بنیاد رکھی گئ اور مشہور شاعر *غلام محمد گھوٹوی* *اپنی وفات تک اپنی جمحہ کی نماز یہاں ادا کرتے تھے*


*1943 میں *عزیز الرحمن عزیز نے پہلی بار *خواجہ غلام فرید*  *کا کلام سرائیکی میں ترجمہ و تشریح تیار کی جو سرکاری سطح پر پرنٹ کیا گیا*


*07۔اکتوبر 1947 کو نواب صاحب نے اپنی ریاست قائداعظم  سے دوستی اور بے لوث جذبہ خیر سگالی پاکستان میں ضم کر دی*



*****  *1952 سے جو بندہ حج پر جاتا اس کو تین ماہ کی ایڈوانس تنخواہ اور چھٹی دی جاتی تھی اور سعودیہ میں اس کی رہائش اور کھانا پینا بھاولپور حکومت کے ذمہ ہوتا تھا*


 *1952 میں پیرا میڈیکل کالج* بنایا گیا*


*1954 میں *صادق پبلک سکول*  *بنایا گیا جس کا رقبہ 450 ایکڑ ہے اور یہ ایشیا کا پہلا اتنا بڑا سکول ہے*


*نواب کے دور حکومت سے 1960 تک مرد حضرات ننگے سر گھر سے باہر نکلنے کو شدید نا پسند کرتے تھے اس وقت سب سے زیادہ ترکی ٹوپی پہنی جاتی تھی*


*ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ 19ویں صدی میں بھاولپور میں تیار ہونے والا ریشم دنیا میں نمبر ون کے نام سے جانا جاتا تھا*

*موجودہ دور میں گورنر ہاؤس لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور ایچیسن کا لج کی جامعہ مسجد،ہوسٹل اور جی او آر (بہاولپور ہاوس) وغیرہ نواب صادق محمد خان پنجم کے تیار کردہ تحفے ہیں*


*اس کے علاوہ نواب صادق محمد خان اول نے اس وقت انڈیا میں موجود ریاست جے سل میر ریاست بیکانیر کلہوڑوں(ایک ذات ہے) سے آزاد کروا کے بھاولپور کا حصہ بنایا*

*اور سندھ میں شکار پور+لاڑکانہ+سیوستان+حیدرآباد* *بھی اسی نواب نے سکھوں سے فتح کیا تھا*

****** 

*یہ ہے وہ بہاولپور جس کے نواب صاحب نے اسے پاکستان میں ضم کر کے پاکستان کی اخلاقی اور مالی امداد کی اور پورے پاکستان کی پہلی  تنخواہ بہاولپور نےچلائی ***

*دعا ھے کہ۔۔۔۔۔*

*اللہ تعالٰی ریاست بہاولپور کیلئے کام کرنے والوں اور تمام اہلیان بہاولپور پر  اپنا خصوصی کرم وفضل فرمائے۔اور پاکستانی حکمرانوں کو بہاولپور کی قدر اور اسکی تعمیرو ترقی کی توفیق عطا فرمائے*

*آمین یا رب العالمین*•┄═<<❁✿✿✿❁>>═┅┄•╯