Friday 19 January 2024

Bloom's Taxonomy in Urdu

BLOOM'S TAXONOMY IN URDU Bloom'sTaxonomy Theory بلوم ٹیکسونومی کا نظریہ اہل فکرو دانش کے مابین 1949 سے لے کر 1953 تک کئی کانفرنسوں میں طویل بحث و گفتگو کے بعد نصاب اور امتحانات کے متعلق اساتذہ کے درمیان روابط کو بہتر بنانے سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا گیا، جسے بلوم ٹیکسونومی نظریہ کا نام دیا گیا ۔ یہ نظریہ 1956 میں منظر عام پر آیا۔اس نظریہ کو ڈیولپ کرنے میں تین آدمیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا نام تھا بجامین بلوم (Benjamin Bloom)۔ انھوں نے (Cognitive) پر کام کیا تھا ۔ دوسرا تھا (David Krathwohl)۔ انھوں نے (Affective ) پر کام کیا تھا۔ تیسری تھی (ANITA HARLOW) انھوں نے (Psychomotor ) پر کام کیا تھا۔ پھر 2001 میں اس نظریہ میں اصلاح و ترمیم کی گئی۔ یہ نظریہ رٹ کر سیکھنے کے نظریہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔یہ نظریہ انسانوں کے دماغی صلاحیت، مثلا سوچنے، سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔اس کے مطابق سیکھنے کے لیے تین بنیادی عناصر ہیں: 1۔ دماغی (Cognitive) 2۔ جذبات و تاثرات (Affective ) 3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor ) اور یہ سب ایک ترتیب میں کام کرتے ہیں۔ 1۔ دماغی (Cognitive) دماغ (Cognitive) کے حوالے سے بلوم کا ماننا ہے کہ زبان و فکر کی تعمیر و تشکیل کے 6 مراحل ہوتے ہیں۔ جو سلسلہ وار اس طرح ہوتے ہیں: (1) معلومات (Knowledge) سیکھنے کا بنیادی مرحلہ کسی چیز کے بنیادی تصورات، حقائق ، شرائط کو جاننا اور انھیں یاد رکھنا ہے ۔ اس مرحلہ میں سمجھنا ضروری نہیں ہے۔ (2) تفہیم (Comprehension) تفہیم میں مرکزی خیالات کو ترتیب دینا، اختصار کرنا، ترجمہ کرنا، حقائق اور نظریات کی تفہیم کا مظاہرہ کرنا شامل ہے۔بالفاظ دیگر معلومات کو سمجھنا ، سیکھنے کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔ (3) اطلاق (Application) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طالب علم نے جو معلومات حاصل کی ہیں اور جو کچھ سمجھا ہے، اس کی روشنی میں وہ حقائق، تراکیب اور قواعد کو استعمال کرتے ہوئے نئی مثالیں بنائے، اور پریشانیوں کو از خود حل کرے۔ مثال کے طور پر جب طالب علم نے یہ قاعدہ سمجھ لیا کہ عربی زبان کے ہر فاعل پر پیش آتا ہے، تو اس علم اور سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے فاعل کی نئی نئی مثالیں بنا سکتا ہے۔ (4) تجزیہ (Analysis) تجزیے میں معلومات کی جانچ پڑتال، ایک دوسرے سے ربط، محرکات یا وجوہات کی نشاندہی، فہرست سازی اورحقائق کے لیے ثبوت تلاش کرنا شامل ہیں۔ عناصر کا تجزیہ،تعلقات کا تجزیہ اور تنظیم کا تجزیہ اس کی مخصوص صفات ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر ایک کام کو کئی طرح سے کیا جاسکتا ہے، تو تجزیہ کرکے سب سے بہتر طریقہ نکالنا تجزیہ کہلائے گا۔ (5) ترکیب (Synthesis) متنوع عناصر اور مختلف اجزا سے کوئی نئی چیز تشکیل دینا ترکیب کہلاتا ہے ۔ اس میں منفرد روابط، منصوبہ سازی اور اجزا سے کامل چیزکی تخلیق شامل ہے۔مثال کے طور پر مختلف جڑی بوٹیوں کو ملاکر ایک نفع بخش دوائی اور معجون مرکب تیار کیا جاسکتا ہے۔ قابل تفہیم معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز خود تیار کرنا ترکیب کا عملی مظہر ہوگا۔ (6) تشخیص یا جج کرنا (Evaluation) معلومات کی صداقت اور معیار کی جانچ کرتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرنا اور اس کے حق میں یا اس کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دینا تشخیص کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کی خصوصیات میں شامل ہیں: داخلی ثبوت کے لحاظ سے فیصلے بیرونی معیار کے لحاظ سے فیصلے اور یہ معلومات کے حصول کا آخری درجہ ہے۔ 2۔ جذبات و تاثرات (Affective ) اس میں لوگوں کے رویوں، جذبات اور احساسات میں بیداری اور ترقی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس کی5 سطحیں ہیں، جو نیچے سے اوپر کی طرف کام کرتی ہیں۔ (1) وصول کرنا (Receiving) کسی چیز کو سیکھنے کے لیے طالب علم کو توجہ دینا ، یاد رکھنا اور شناخت کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیکھنے کے عمل کا آغاز نہیں ہوسکتا۔ (2) جواب دینا (Responding) جو کچھ سیکھا ہے اس پر عملی مظاہرہ کرنا ضروری ہے، صرف یاد کرلینا اور اس کی عملی مشق نہ کرنا کافی نہیں ہے۔ (3) معنی خیز بنانا (Valuing) طالب علم حسب ضرورت اپنی کچھ معلومات یا کل معلومات کو جوڑ کر معنی آفرینی کرتا ہے ۔ (4) منظم کرنا (Organizing) طالب علم مختلف معلومات، اور نظریات کو اپنے تصورات میں بساکر ایک خاکہ بناتا ہے اورجو کچھ سیکھا ہے اس کی روشنی میں ایک مکمل پلان تیار کرتا ہے۔ اور یہ سیکھنے کا آخری مرحلہ ہے۔ (5) ملکہ بن جانا(Characterizing) معلومات و نظریات اس مرحلے میں طالب علم کا ملکہ یا فطری صلاحیت بن جاتی ہے، جس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہتا۔ 3۔ عملی سرگرمیاں (Psychomotor ) سائکوموٹر عام طور پر رویے اورمہارت میں تبدیلی یا ترقی پر بحث کرتا ہے۔ بلوم اور اس کے ساتھیوں نے سائکو موٹر کے حوالے سے کوئی ذیلی چیزیں بیان نہیں کیں ، تاہم بعد کے لوگوں نے اس میں اضافہ کیا، جس کا خلاصہ پیش ہے۔ (1) حس (Perception) حسی اشارے، اور تجربہ سے معلومات حاصل کرنا۔ یہ معلومات حاصل کرنے کا بنیادی مرحلہ ہے۔ (2) ذہن سازی (Set) اس میں ذہنی ، جسمانی اور جذباتی اقدار شامل ہیں۔ یہ تینوں سیٹ کسی شخص کو مختلف حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں یا اس کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں ۔ (3) ہدایت والا جواب (Guided response) کسی دوسرے شخص کی رہ نمائی میں عملی مہارت پیدا کرنے اور خارجی عادت و اطوار کی ترقی دی جاتی ہے ۔ (4) میکانزم (Mechanism) سیکھی ہوئی چیز میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی اور طالب علم کچھ ٹاسک از خود کرسکتا ہے۔ جیسے نارمل طریقے پر گاڑی چلانا۔ (5) پیچیدہ جواب (Complex overt response) اعلیٰ ترین مہارت ، جہاں پہنچ کر اس کام کو بلا خوف اور ہچکچاہٹ انجام دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بھیڑ بھاڑیا تنگ جگہوں پر گاڑی چلانا۔ (6) مطابقت (Adaptation) اعلیٰ مہارت اور تجربات کی وجہ سے غیر متعلق چیزوں سے بھی کوئی دوسرا کام لے لینا۔ مثال کے طور پر پانی کے موٹر سے اسکوٹر چلانے کا کام لے لینا۔ (7) تخلیق (Origination) انتہائی ترقی یافتہ مہارتوں کی بنا پر تخلیقی صلاحیتیں وجود میں آتی ہیں اور پھر نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے۔ تمام جدید ایجادات کی اس مثالیں ہوسکتی ہیں۔ #خلاصہ بلوم ٹیکسونومی نظریہ دراصل تعلیمی مقاصد کی تشریح کرتا ہے، جو طالب علموں کی قوت فکر پر مبنی ہے۔ تعلیم میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اس کا اطلاق ضروری ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ اساتذہ کے لیے اپنی تدریسی اور تعلیمی مراحل کو بہتر بنانے میں معاون ہے

No comments:

Post a Comment