Wednesday 20 December 2023

DYSLEXIA

DYSLEXIA (SPECIFIC LEARNING DISABILITY) ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) آج کی دنیا میں بےشمار لوگ کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی ڈپریشن اور انگزائٹی میں مبتلا ہیں۔ اس کا سدِ باب وقت پر نہ ہو تو نفسیاتی اور ذہنی امراض جنم لینے لگتے ہیں ذہنی دباؤ (اسٹریس)، تناؤ (ٹینشن)، مایوسی و افسردگی (ڈپریشن)، بے چینی (نروسنیس)، گھبراہٹ (انگزائٹی)، خوف، دہشت، بے جا خوف (فوبیا)، ہائپرٹینشن، وسوسہ، واہمہ(شیزوفرینیا) چڑچڑا پن (فرسٹریشن) جارحیت (ایگریسونیس) اضمحلال SAD ، خبط OCD، صدمہ PTSD، مالیخولیا، بائی پولر ڈس آرڈر، ہسٹریا، ڈسلیکسیا، شک، حسد، نیند کی کمی ، پریشان کن خواب، احساس کمتری، ناکامی، پژمردگی اور دیگر نفسیاتی الجھنیں وغیرہ موجودہ دور کے عام مسائل ہیں یہ ذہنی و نفسیاتی عارضے کسی ایک طبقے یا صنف تک محدود نہیں ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، بچے ہوں یا بوڑھے روز مرّہ زندگی کے مسائل سے اُلجھ کر نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ ہمارے معاشرے میں جبر برداشت لوگ خصوصاً عورتیں اور بچے خاص طور پر ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں۔ بحرحال ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص، سمعی نقائص،ذہنی صحت (نفسیاتی) معذوریاں،فکری معذوری اوراکتسابی معذوری (Learning Disabilities)وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا(Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کاہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متاثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ اپنی اکتسابی معذوری سے اتنے مایوس ھو جاتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں عموماً خودکشی کی وجوہات بیان کرتے وقت سادہ تشریحات کا سہارا لیا جاتا ہے، Dyslexia is a learning disorder that involves difficul Dyslexia is a learning difficulty that primarily affects the skills involved in accurate and fluent word reading and spelling. Characteristic features of dyslexia are difficulties in phonological awareness, verbal memory and verbal processing speed. Dyslexia occurs across the range of intellectual abilities. ڈسلیکسیا دنیا بھر کے بچوں میں پائی جانے والی ایک عام لرننگ ڈس ایبلیٹی ہے، اعداد و شمار کے مطابق یہ مسئلہ ہر 10 میں سے ایک بچے میں پایا جاتا ہے۔ تعلیمی ماہرین نفسیات کے مطابق ڈسلیکسیا جسے نقصِ کلام بھی کہا جاتا ھے کوئی ذہنی معذوری نہیں اور نہ ہی ڈسلیکسیا کے شکار بچے بیوقوف نہیں ہوتے بلکہ اس کے شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دقت محسوس کرتے ہیں، تاہم انہیں کند ذہن یا کاہل بھی نہیں کہا جا سکتا، ان کی یہ کمزوری صرف سیکھنے کے عمل میں ہی رکاوٹ کھڑی کرتی ہے،ڈسلیکسیا کی وجہ سے لوگ اپنا موقف یا اپنی رائے کے اظہار میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لیے الفاظ کے چناؤ اور اپنی سوچ کو گفتگو کی صورت میں کرنا اور اسے مربوط کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ بعض افراد کو دوسروں کی گفتگو کو سمجھنے میں بھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔یہ تمام مسائل شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسے مسائل کا شکار فرد نفسیاتی طور پر کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ لوگ اسے اہمیت نہیں دے رہے اور اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اسے ہم ذہنی کمزروی نہیں کہہ سکتے، چونکہ بچے کی ابتدائی تعلیم کا آغاز لکھنے، پڑھنے سے ہوتا ہے اور اسی سطح پر بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے جتنا جلد اس کی شناخت کر کے متبادل طریقوں سے سیکھنے کے عمل میں بچے کی مدد کی جائے، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ڈسلیکسیا کے شکار افراد بھی بے حد کام یاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں کیٹی اومیلی انڈیپینڈنٹ اردو میں اس بارے میں لکھتی ہیں کہ ڈسلیکسیا ایسی بیماری کو کہتے ہیں جس کے شکار فرد کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کا تعلق دماغ اور اُس کے کام سے ہے مگر اِس کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ڈسلیکسیاکا شکار بچوں کوکسی بھی زبان کے الفاظ کی ادائیگی اورآواز کے اتار چڑھاؤ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ڈسلیکسیاکے شکار فرد کو سپیلنگ میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈسلیکسیا پڑھنے کی ایک ایسی معذوری کا نام ہے جو کہ چھپی ہوئی ہوتی ہے اِس کا عام لوگوں اور جو فرد اِس کا شکار ہو اُسے خود پتا نہیں چلتا کہ وہ اِس کا شکار ہے۔ چوں کہ اکثر اوقات اساتذہ کو بھی اِس بیماری اور اِس کی علامات کے بارے میں علم نہیں ہوتا اِس لیے وہ بچے جو ڈسلیکسیاکا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی جماعت کے دوسرے بچوں کی نسبت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اساتذہ بھی اُن کی کسی قسم کی مدد کے قابل نہیں ہوتے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) سے متعلق ڈان نیوز نے بھی لکھا ھے جس کے مطابق اس بیماری کو زیادہ تر لوگ مسئلہ سمجھتے ہیں، اسے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا جب کہ بہت سارے لوگ اس کی علامات ہی نہیں سمجھ پاتے۔اس بیماری کا براہ راست تعلق حروف کو پہچاننے، پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات سے ہے اور اسے کئی سال قبل ’ورڈ بلائنڈنیس‘ یا ’ریڈنگ ڈس ایبلٹی‘ بھی کہا جاتا تھا لیکن پھر 1968 میں اس کے لیے پہلی بار ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔عام طور پر اس بیماری کی علامات اس وقت سامنے آتی ہے جب بولنے کی عمر کو پہنچتا ہے اور ان کی جانب سے بول نہ پانے کو ’ڈسلیکسیا‘ کی ابتدائی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم بچوں کی جانب سے بول نہ پانے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور اس وقت کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کی زیادہ تر کھل کر علامات اس وقت سامنے آتی ہیں جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں اور وہیں انہیں حروف کو پہچاننے، لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ڈسلیکسیا والے بچے اکثر شرمیلے ہوتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے درمیان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ بے بسی کا احساس ناکامی اور اس کے نتیجے میں ناکامی کے خوف کا سبب بنتا ہے۔ اکثر ایسے بچے اپنی صلاحیتوں اور طاقت پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ڈسلیکسیا میں مبتلا بہت سے لوگوں کو پڑھائی کے دوران توجہ مرکوز کرنے اور جلدی تھکنے میں دشواری ہوتی ہے۔’ڈسلیکسیا‘ کی علامات سب سے پہلے بچوں کے اساتذہ نوٹ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر استادوں کو یہ علم نہیں کہ بچوں کی جانب سے درست انداز میں پڑھائی نہ کرپانے کی ایک وجہ ’ڈسلیکسیا‘ بھی ہوسکتا ہے۔اس کی 4 بڑی اقسام ہیں جن میں Phonological dyslexia. This is also called dysphonetic or auditory dyslexia. ... Surface dyslexia. This is also called dyseidetic or visual dyslexia. ... Rapid naming deficit. The person finds it difficult to name a letter, number, color, or object quickly and automatically. ... Double deficit dyslexia. مثلاً ڈیسگرافی میں حروف بڑے اور غلط شکل کے ہوتے ہیں، لکیروں سے آگے بڑھتے ہوئے، بچہ ایک جیسے نظر آنے والے حروف کو الجھا دیتا ہے، حروف کو چھوڑ دیتا ہے اور حروف اور نحو کو دوبارہ ترتیب دیتا ہے، وہ ایک لفظ کو کئی طریقوں سے لکھتا ہے، جیسے سیجا، شجا، سجا (گردن)، اور وہ نہیں لکھتا۔ Dysortografia ہجے میں قواعد کے علم کے باوجود ہجے کی درستگی کے لحاظ سے لکھنے کی مہارت کی کمی ہوتی ہے بچہ مثال کے طور پر پہاڑ اور گورا ایک متن میں لکھتا ہے اور فرق محسوس نہیں کرتا۔ ڈسکلیولیا میں ریاضی سیکھنے کے بارے میں مشکلات آتی ہیں مثلاً نمبروں کے نام دینے میں دشواری، علامات، نمبر اور علامتیں، مبہم اعمال، بچے کو تقسیم اور ضرب کرنی چاہیے، حالانکہ وہ تقسیم کا نشان دیکھتا ہے اس قسم کی علامات لازمی نہیں کہ بچوں کو پڑھائی میں مشکلات کو’ڈسلیکسیا‘ سے جوڑا جائے، تاہم ایسی صورت حال میں ماہر ڈاکٹرز سے رجوع کیا جانا چاہئیے۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے درست تشخیص کے لیے ماہر امراض اطفال سمیت اعصابی اور دماغی بیماریوں کے ماہرین کے پاس جایا جاسکتا ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں بعض جینیاتی بھی ہوتی ہیں اور بعض نیورو کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بعض بچوں میں اس بیماری کی شدت سنگین ہو اور اس کی علامات بھی انتہائی خطرناک ہوں۔ عام طور پر ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات اتنی شدید اور خطرناک نہیں ہوتیں اور آغاز میں ہی بچوں میں ایسے مسائل سامنے آنے کے بعد ڈاکٹرز سے رجوع کرنے پر علامات ختم ہوجاتی ہیں لیکن بعض مرتبہ والدین کی جانب سے ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات کو نظر انداز کرنے سے بیماری میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کا کوئی علاج موجود نہیں، البتہ ماہرین صحت اس کی علامات اور شدت کو دیکھتے ہوئے دیگر ادویات سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کے شکار بچوں کے ساتھ ایک اور ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ والدین اور دیگر افراد انہیں کم عقل اور نالائق سمجھ کر پڑھ نہ پانے پر انہیں ڈانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ایسے بچوں میں مایوسی بڑھ سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment